ہومیوپیتھک دوا کے انتخاب کا طریقہ – حسین قیصرانی

دنیا بھر کے نامور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی کتابیں زیرِ مطالعہ رہی ہیں اور اب بھی رہتی ہیں۔ مطالعہ کرنا بہت ہی اچھی بات ہے لیکن ان کی لکھی ہوئی سب باتیں تسلیم کر لینا ضروری نہیں ہوا کرتا۔ خاص طور پر ایسے میٹریا میڈیکا (Materia Medica) ہم دیکھتے ہیں کہ اہم ادویات کے خواص کئی کئی صفحات میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان طول طویل تحریروں کو پڑھ کر کئی دفعہ تو ذہن اُلجھ جاتا ہے۔ جب معاملہ یہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ ان کو یاد رکھا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایک نامور ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی کتاب میں صرف اکونائٹ (Aconite) دوا کا بیان تیس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ایسی اہم ادویات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان سب کی تمام علامات یاد رکھنا بھلا کیسے ممکن ہے۔ ہمارے پاکستانی مصنفین، مترجمین یا ڈاکٹرز نے، بالعموم، ایک کی لکیر پر کچھ رد و بدل کر کے نئی لکیر مارنے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ نہ معلوم کیوں؟
انگریزی زبان میں ڈاکٹر جارج وتھالکس (George Vithoulkas) کا کام منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد دلچسپ بھی ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کوئی ادبی شاہکار پڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے میٹریا میڈیکا ویوا (Materia Medica Viva) میں دوائیوں کی تفصیل ایسے بتاتے ہیں کہ جیسے آپ کے اردگرد کے مریضوں یا انسانوں کا ذکر چل رہا ہو۔ اردو زبان میں یہ کمال اور خاصا صرف ڈاکٹر بنارس خان اعوان کا ہے۔ قدرت نے اُن کو منفرد اور اچھوتا اسلوب عطا کیا ہے۔ مسلسل محنت اور اظہار و بیان پر مکمل گرفت کے باعث ہومیوپیتھی پر اُن کا کام جہاں علمی تقاضے پورے کرتا ہے وہاں عملی حوالے سے بھی نئی جہتیں متعارف کرواتا ہے۔ ہومیوپیتھک دوائیوں کے تعارف میں وہ جس بے ساختگی، سادگی اور سلاست کو روا رکھتے ہیں وہ علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسے ہے کہ
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مَیں نے بقدرِ اِستطاعت، ہومیوپیتھی کے اِن بے مثل اساتذہ کے کام سے بھی استفادہ کیا ہے۔پروردگار کی کرم گُستری ہے کہ میرے کلائنٹس اور قارئین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن میں ایک واضح تعداد میڈیکل اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی بھی ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں کہ میری تحریروں کی وجہ سے ہی جن کی دلچسپی ہومیوپیتھی اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں پیدا ہوئی اور اب بڑھتی جا رہی ہے۔ اُن میں سے چند احباب نے، جن کا میرے دل میں بہت احترام ہے، خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں اِس موضوع پر بھی کچھ لکھوں کہ میں اپنے کلائنٹس کی تشخیص کیسے کرتا ہوں یا دوسرے لفظوں میں، میں کسی مریض کے ڈھیر سارے مسائل کے لئے صرف ایک دوا کا انتخاب کس طرح کر لیتا ہوں۔ اگرچہ ایسے احباب کے لئے کہ جنہوں نے ہومیوپیتھی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی ہو، یہ معاملہ سمجھنا مشکل ہے تاہم مَیں کوشش کرتا ہوں۔ یہ موضوع نہایت سنجیدہ ہے اور اِس کے بہت پہلو ہیں مگر ہومیوپیتھک میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے سادہ ترین رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

ہر دوا کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں جو یاد بھی رکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اکونائٹ (Aconite) کی بہت ساری خصوصیت میں سے اہم ترین یہ ہے کہ علامات اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور ان میں بڑی شدت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مریض کو اچانک سردی لگ جاتی ہے جس کے سبب نزلہ، کھانسی، بخار، پیاس، بے چینی اور درد وغیرہ علامات شدت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایکونائٹ (Aconite) صحیح دوا ہے۔ اسی طرح صرف درد، صرف کھانسی، صرف نزلہ مگر کوئی بخار نہیں۔ اچانک یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بھی اکونائٹ (Aconite) دوا ہے۔ صرف دو الفاظ ذہن میں رکھنا کافی ہے — اچانک اور شدت۔

ہر دوا کی علامات بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ ان میں سچے موتی بھی ہیں اور کم قیمتی موتی بھی۔ سچے موتی نکال کر دماغ میں محفوظ کرنے ہوتے ہیں۔ حسبِ ضرورت یعنی جب مریض اپنی تکالیف بیان کرتا ہے تو یہ خود بخود نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ چھوٹی علامات کم قیمتی موتی کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ بھی کبھی کبھی کام آ جاتے ہیں۔ سچے موتی اِستعمال کر لینے کے بعد بھی کبھی کبھار ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ پھر ہم کم قیمت والے موتیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان میں سے بہتر نکال کر ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔

آئیے چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

ایک خاتون دس گیارہ ماہ کے بچے کو اُٹھائے سامنے آ بیٹھتی ہے اور اچھا بھلا پُرسکون بچہ زور زور سے رونے لگتا ہے۔ محترمہ کھڑی ہو جاتی ہے تو بچہ خاموش ہو جاتا ہے۔ اگر ہومیوپیتھک دوا کیمومیلا / کیموملا (Chamomilla) کی علامات یاد ہیں تو یہ فورا ذہن میں آئے گی۔ پھر کنفرم کرنے پر معلوم ہو گا کہ بچے کو بڑے بدبودار جلاب آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی قے بھی کر دیتا ہے؛ وہ بھی بد بو دار۔ ضد کرتا ہے کہ اٹھائے لئے پھرو۔ دانت بھی نکال رہا ہے۔

ایک بھاری بھر کم موٹی مریضہ چوہدرانی صاحبہ بیٹھتے ہی کہتی ہیں کہ اس کا ہاضمہ اکثر خراب رہتا ہے۔ غذا ہضم نہیں ہوتی، کھٹے ڈکار آتے ہیں، سینہ جلتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اتنی سردی پڑ رہی ہے مگر دروازے کھڑکیاں کھول کر سوتی ہوں۔ یہ علامات ہومیوپیتھک دوا پلساٹلا (Pulsatilla) کی ہیں۔ کنفرم کرنے کے لئے پوچھ لیتا ہوں کہ منہ خشک ہونے کے باوجود پانی پینے کو دل نہیں کرتا؛ چڑچڑاپن اور غصہ بہت ہے مگر رونے کا مزاج بھی ہے؟ اُس کا جواب ہاں میں ہی آئے گا۔ وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زمیندار لوگ ہیں دودھ، مکھن، گھی کا استعمال زیادہ ہے؛ اس لئے ہاضمہ خراب ہو گیا۔

ایک تعلیم یافتہ اور مہذب خاتون بڑی گاڑی میں آتی ہے اور کہتی ہے کہ مَیں کمزور ہوتی جا رہی ہوں؛ حالانکہ میری غذا بہت اچھی ہے۔ میرا بھائی امریکہ میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر ہے اور بہت مہنگے فوڈ سپلیمنٹس اور ملٹی وٹامنز بھیجتا رہتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ پاکستان میں تو کسی بھی چیز کا اعتبار نہیں۔ ویسے ڈاکٹر صاحب، آپ بھی امپورٹیڈ میڈیسن ہی منگواتے ہیں نا۔ مَیں ہومیوپیتھی پر کوئی خاص اعتبار نہیں کرتی مگر میری گائناکالوجسٹ نے آپ کی بہت تعریف کی ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ بحریہ ٹاؤن میں ہوتے ہیں تو کوئی عام ڈاکٹر تو نہیں ہوں گے۔ آپ لندن کب گئے تھے۔ میں بھی جب یو ایس (US) جاتی ہوں تو چند دن لندن ضرور گزارتی ہوں۔
ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ میں عام عورتوں کی طرح فضول اور گھٹیا چیزیں بالکل بھی نہیں کھاتی۔ اگر کبھی باہر کھانے جانے کا پروگرام بنے تو ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ کبھی ٹانگیں سُن ہو جاتی ہیں کبھی بازو۔ کبھی سوچتے سوچتے سر سُن ہو جاتا ہے۔ اس کے طرزِ گفتگو سے اخذ کر لیتا ہوں کہ محترمہ متکبر اور مغرور ہے۔ اپنے آپ کو بالاتر سمجھتی ہے۔ اس کا اثر اس کے جسم پر ہو رہا ہے۔ دوا ذہن میں پلاٹینا (Platina) آنی چاہئے۔

ایک دُبلے پتلے محترم آ کر کہتے ہیں۔ میری صحت بگڑی جا رہی ہے۔ میں کلرک ہوں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں۔ بلاوجہ میرے افسر مجھ پر برستے رہتے ہیں۔ کئی بار دل کیا کہ میں صاف صاف بتا دوں کہ مزید برداشت نہیں کروں گا لیکن میں یہ بول نہیں سکتا۔ رات دن کُڑھتا رہتا ہوں۔ دوا سٹیفس (Staphysagria) ہے۔ اس کا کام اور دفتر تو نہیں بدل سکتے لیکن نصیحت کر سکتے ہیں کہ کُڑھنے سے فائدہ نہیں بلکہ آپ کا نقصان ہی نقصان ہے۔ پرواہ نہ کیا کریں اور اگر آپ کا مزاج ایسا ہے تو کبھی کبھی یہ دوا لے لیا کریں۔

مریضہ کہتی ہے مجھے دردیں ہوتی ہیں؛ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ رات کو تو میں کمرے میں سو نہیں سکتی۔ درد جہاں بھی ہو رہا ہو زیادہ ہو جاتا ہے۔ سردی ہے لیکن میں رات کو برآمدے میں جا سوتی ہوں۔ مینسیز (Menses / Periods) بہت تھوڑے آتے ہیں اور درد بھی ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ سے لیکوریا بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ دوا پلساٹلا (Pulsatilla) میں کوئی شبہ نہیں۔

اسی طرح کی علامات دوسری مریضہ بیان کرتی ہے۔ کہتی ہے دردیں ہیں کبھی ادھر کبھی اُدھر اور سردی تو مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتی۔ اس سے دردیں بڑھ جاتی ہیں۔ زیادہ موسم سرد بھی نہیں مگر میں لحاف لے کر بند کمرے میں سوتی ہوں۔ اس کی دوا سائیکلامن (Cyclamen) ہے۔ پلساٹیلا اور سائیکلامن (Cyclamen) کی علامات ایک جیسی ہیں۔ پہلی کا مزاج گرم ہے اور اُسے کھلی ٹھنڈی ہوا پسند ہے اور دوسری سرد مزاج ہے اور اُسے گرمی میں سکون ملتا ہے۔

لیبارٹری ٹیسٹ بھی بعض مریضوں کے مطلوب ہوتے ہیں لیکن اگر ہم انسانوں کو سمجھنے میں بڑی محنت اور رجوع کریں گے تو علامات ہمارے دماغ میں بیمار اور بیماری کی تصویر کھینچ لیں گی۔ علامات سن کر دماغ کیمرے کی طرح کام کرتا ہے۔ مرض کی نوعیت صرف فعلی بگاڑ ہے، ورم کی کیفیت کیسی یا کون سی ہے، ساخت بگڑ چکی ہے یا نوساخت ہے۔ محنت، خلوص اور مریض پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھار ہی سٹیتھوسکوپ، لیبارٹری ٹیسٹ، رپورٹس اور ایکسرے وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔

(حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210)

kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter