ہومیوپیتھک دوا ارجنٹم نائٹریکم: جارج وتھالکس


تلخیص و ترجمہ
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ
ڈاکٹر ملک مسعود یحیےٰ
نائٹریٹ آف سلور

ذہنی جذباتی علامات:

* اپنی صحت کی بابت شدید پریشانی۔ موت کا خوف
* مراق
* دماغ مخصوص خیالات پر اڑجاتا ہے۔ ان پر قابو نہیں پاسکتا نہ ہی ان خیالات کو دماغ میں آنے سے روک سکتا ہے۔
* بلندیوں کا خوف۔ ہجوم کا خوف۔ پل کراس کرنے سے خوف
* تنگ جگہوں کا خوف۔ بند جگہوں کا خوف
* پیش بینی اضطراب اسہال کا پیش خیمہ ہوتا ہے
* بار بار پیشاب
* خارجی اشیاء سے دلچسپی کا رجحان
* اپنے محسوسات دو ٹوک الفاظ میں بیان کرے
جسمانی علامات:
* آنکھوں کی دانہ دار سوزش۔ ایک جگہ پرقرمزی سرخ رنگ جیسے کہ خام گوشت
* نگلتے وقت حلق میں کھپچی چُبھی ہونے کا احساس
* زور دار ڈکار اور ریاح مشین گن کی مانند
* ریاحی تکالیف کے ہمراہ شکم میں انتفاخ
* شکر یا مصری کی بنی اشیاء کھانے کے بعد اسہال
عمومیات:
* مٹھائیوں کی خواہش۔ شکر، نمک کی خواہش
* جب اوپر لیا ہوا کپڑا اتارے تو سردی محسوس ہو لیکن اگر کپڑا لپیٹ لے تو دم کشی ہو
* گرمی سے اضافہ
* مٹھائیوں سے اضافہ
جھت:
اضافہ
* گرمی سے
* مٹھائیوں سے
* غیر ضروری دماغی ورزش سے
جی وی۔ اگر آپ میٹیریا میڈیکا میں دیکھیں اور صرف الفاظ پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ارجنٹم نائٹریکم اور ایکو نائٹ میں ذرا بھی فرق نہیں ہے۔
اپنی صحت کی بابت کڑا اضطراب، موت کا خوف، مراق، بلندیوں کا خوف (بلند عمارتوں کا خوف)، ہجوم کا خوف، تنگ جگہوں کا خوف، بند جگہوں کا خوف، پل کراس کرنے سے خوف وغیرہ۔
لیکن ارجنٹم نائٹریکم کے خوف و دہشت زدگی کے حملے ایکو نائٹ کے خوف و دہشت زدگی کے حملوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ آپ اپنی دلچسپی کیلئے ان میں فرق کا ادراک کیسے کریں گے؟ کون سے حقیقی اختلاف موجود ہیں؟
خوف و ہراس اور اضطراب کے حملے دونوں ہی مکمل طور پر مختلف ہیں کیونکہ ارجنٹم نائٹریکم جب ایک بار مضطربانہ حالت میں پہنچ جاتا ہے تو مسلسل اسی حالت میں رہتا ہے۔ ذہنی پریشانی اور خوف۔ موت کا خوف، کینسر ہوجانے کا خوف، دل کے دورے کا خوف یا کسی بھی مرض کا خوف۔ لیکن ارجنٹم نائٹریکم کے مریض کا کردار ایکو نائٹ کے مریض کے کردار سے بہت مختلف ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم کے مریض حد سے بڑھ کر مائل بہ گفتگو ہوتے ہیں۔ وہ بہت آسانی سے اپنے خوف ظاہر کردیتے ہیں۔ اپنے جذبات ظاہر کردیتے ہیں۔ یہ مریض ہچکچاتے نہیں ہیں نہ ہی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور جب جذبات ابھرتے ہیں تو ان کا اظہار ضروری ہوتا ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم کے مریض صاف گو اور سادہ دل ہوتے ہیں یہ افراد اپنے احساسات کو زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتے۔
آئیں دیکھیں کہ خوف و دہشت کے حملوں میں کیا ہوتا ہے۔ پیتھالوجی دیکھتے ہیں۔ ارجنٹم نائٹریکم کی مکمل تصویر ارجنٹم نائٹریکم جذباتی ہے۔ اسے جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ کیا ہوگا جس لمحے وہ مضطرب ہوتا ہے تو وہ دوسرے فرد سے رابطہ کرتا ہے، گفتگو کرتا ہے اور اسے دوسرے فرد سے مکرر یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے حوصلے اور خود اعتمادی کی بحالی کی ضرورت ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم کے کہنے کا ایک طریقہ ہے جس پر یقین کیا جاسکتا ہے اور یہ طریقہ ایک حد تک غیر معاشرتی ہوتا ہے۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ مجھے ایک مریضہ یاد ہے جس کو پستان کے کینسر کا خوف تھا۔ اس نے کہا میں کسی سے بھی پوچھ سکتی ہوں۔ میں ایک بار خوف و دہشت کی حالت میں تھی مجھے ڈھارس کی ضرورت تھی وہ بولتی گئی ایک دن گلی میں مجھے ایک دودھ والا مل گیا تو اس نے گلی میں اپنا پستان نکالا اور دودھ والے سے پوچھا کہ کیا اسے میرے پستان میں کینسر ترقی کرتا نظر آتا ہے (حاضرین کا قہقہہ)۔ آپ تصور کریں کہ ایک عورت آپ کے پاس گلی میں آئے اور کہے کہ براہ کرم میرا معائنہ کریں۔ مریضہ بالکل پرواہ نہیں کرتی کہ اس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔ اگر لوگ سوچ رہے ہیں کیا ہورہا ہے۔
مریضہ اس ترنگ کو روک نہیں سکتی وہ اتنی جذباتی ہوتی ہے۔ وہ ایک بار آپ کو بتادے گی ایک بار جب وہ آپ کو تصور دے دے گی۔ فوری طور پر اپنے خوف کا اظہار کردے گی مجھے اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ تب آپ کے ذہن میں ارجئٹم نائٹریکم کا خیال آتا ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم مراقی ادویات میں سے ایک دوا ہے۔ مراقی پن کیا ہے؟ سوداوی مزاج۔ ہر وقت یہ سوچے کہ مجھے کینسر ہوجائے گا، میں مرجاؤں گا، مجھے دل کا دورہ پڑے گا، مجھے سکتہ ہوجائے گا، میرے سر میں خون رس جائے گا یا جو کچھ بھی۔
ارجنٹم نائٹریکم کے مریض کا اپنی صحت کی بابت اضطراب ممکن ہے انوکھی حدوں کو چھونے لگے۔ جب وہ اکیلا ہو تو آسانی سے خوف و ہراس کا شکار ہوسکتا ہے اور اس کا جسم لرزتا ہے۔ مریض ہکلاتا ہے، بڑبڑاتا ہے۔ حتیٰ کہ اینٹھتا ہے۔ اکثر اوقات بحرانی کیفیت میں بار بار پاخانہ آتا ہے یا اسہال آنے لگتے ہیں۔ مریض پر ناقابل بیان خوف چھا جاتا ہے اور مریض دماغی طور پر ہار مان لیتا ہے۔
اس مرحلے پر ممکن ہے مریض بسا اوقات یہ سوچے کہ کوئی منحوس قوت اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔ مریض سادہ لوح ہوتاہے۔ اپنی صحت کی بابت ہر ایرے غیرے کی رائے مان لیتا ہے۔ اسے اختلاج قلب ہونے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس کو دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ جوں ہی دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اس کی سوچ منجمند ہوجاتی ہے۔ میرے خدا یہ کیا ہورہا ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی علامات اس کے تصور میں ڈرامائی طور پر حد سے تجاوز کرجاتی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی زندگی میں ایک سرگرم کاروباری فرد رہا ہو۔ وہ اس اعصابیت کی حالت میں اپنی عقل استعمال نہیں کرسکتا وہ بس ان کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔
آپ اپنے تشخیصی کمرے میں بیٹھے ہیں مریض آتا ہے اور ایک دھیمے لہجے میں آپ سے مخاطب ہوتا ہے کہ مجھے موت سے خوف آتا ہے۔ جب ایک مریض اس طرح سے ابتدا کرے تو یہ آپ کی سردردی ہے کہ آپ فرق محسوس کرلیں۔ مجھ پر خوف وہراس کا حملہ ہوتا ہے، میں خوف و دہشت میں مبتلا ہوں۔ جب مریض اس طرح سے ابتدا کرے تو آپ کا فرض منصبی ہے کہ آپ مریض کے خوف وہراس کے حملے کی گہرائی اور اس کے اظہار کا مقصد سمجھ لیں۔

اگر آپ کے پاس میٹیریا میڈیکا کا وافر علم موجود ہے تو آپ ایک حالت کو دوسری حالت سے الگ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
ریپرٹری میں موت کا خوف تلاش کرنے کو بھول جائیں۔ آپ کو تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے سامنے جو مریض بیٹھا ہے وہ کس قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔اس لئے آپ کو مریض سے گفتگو کرنی پڑے گی۔ آپ کو مریض سے زیادہ سے زیادہ سوالات کرنے ہوں گے۔ آپ مریض سے کہیں گے کہ وہ اصل حقائق بیان کرے۔ ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ ارجنٹم نائٹریکم کا تازہ مریض اپنے اندر سب کچھ چھپا کررکھتا ہے اور حقائق واضح نہیں کرتا جس طرح کہ اس عورت نے مکمل تصویر واضح کردی تھی۔ اس لئے مغربی عوام کی جو تصویر آپ کو حاصل ہوگی اس کے نقش و نگار ادھورے ہوں گے۔
اگر یہاں کوئی استاد موجود ہو جو ایکو نائٹ کے خوف کے حملوں کی وضاحت کرسکے جیسے کہ میں پہلے نقالی کرچکا ہوں۔ آپ دیکھیں میں یونانی ہوں میں خوف و ہراس کے حملے کی نقل کرکے دکھا سکتا ہوں۔ یہاں اگر سوئس استاد ہوتا تو کبھی بھی نقالی نہ کرتا۔ وہ اتنی کوشش بھی نہ کرتا! (حاضرین ہنسے)۔
یہاں آپ کو اور زیادہ رکاوٹ محسوس ہوگی لیکن آپ صرف الفاظ کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتے۔ الفاظ تو دل سے نکلنے چاہئیں۔ آپ دیکھیں باتیں سمجھنے کیلئے ہمیں جسم کا رد عمل درکار ہے جو دل سے آتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ دماغ ہر شے کو کنٹرول کرتا ہے۔
ہم یہاں بیٹھ کر وضاحت کرسکتے ہیں (جارج مریض کی نقالی کرتا ہے کہ مریض سامنے بیٹھا ہوا ہے اور بڑی پابند گفتگو کررہا ہے)۔
اچھا! آپ جانتے ہیں مجھ پر خوف و ہراس کا حملہ ہوتا ہے۔
تم پر کس قسم کے خوف و ہراس کا حملہ ہوتا ہے؟
اچھا تم جانتے ہو۔۔۔۔
ہمارے پاس ادویات ہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہم کتنی بھی تفتیش کریں مریض اپنی علامات پوشیدہ رکھتا ہے اور جب آپ کو یہ رکاوٹ نظر آتی ہے۔ مکمل خوف جسم کی گہرائی میں بیٹھ جاتا ہے اور جسم میں اتنی قوت نہیں ہوتی کہ وہ اس کا اظہار کرسکے۔ تب آپ کو دوسری ادویات کی ضرورت محسوس ہوگی جن کی بابت ہم گفتگو کریں گے۔
لیکن ارجنٹم نائٹریکم تو جذبے کا اظہار کرنے والا مریض ہے ۔ ہم کہتے ہیں اضطراریت، عمل انگیز۔لیکن ہم ادراک نہیں کرتے کہ یہ اضطراریت پریشانی کے دوران بھی ہوتی ہے۔ مریض خوف و ہراس کے ہمراہ اضطراریت کا اظہار کرے گا اور یہ ہی فارقہ علامت ہے جس سے ایک دوا دوسری دوا سے الگ ہوجاتی ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم کی ذہنی جذباتی پیتھالوجی کی ابتدائی علامت یاداشت کا کمزور ہونا ہے۔ مریض جس طرح پہلے کام کررہا تھا اب اس طرح کام سرانجام نہیں دے سکتا۔ اس نقطے پر مریض کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اکتسابی صلاحیتیں کمزور ہوگئی ہیں اور اس کی یاداشت زوال کا شکار ہے۔ مریض محسوس کرتا ہے کہ وہ نااہل اور ناقابل ہے۔ خصوصاً جب مریض کو کسی قسم کی چنوتی کا سامنا کرنا پڑے۔
ارجنٹم نائٹریکم کا مریض اگر موضوع کو بخوبی جانتا ہو تو بھی عوام کے سامنے تقریر کرنے سے گھبراجاتا ہے اور ممکن ہے تقریر کرنے کے بعد اس کے شکم میں ہوا گڑگڑانے لگے، اپھارہ ہوجائے، قے آجائے حتیٰ کہ اسہال آنے لگیں۔
جوں ہی مریض اس کمی کا نوٹس لیتا ہے تو وہ جلدی سے کام نپٹانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس کافی وقت نہیں ہوتا۔ مریض بے صبرا ہوجاتا ہے اور کسی اور مصروفیت کا کم ہی انتظار کرتا ہے۔ مریض ملاقات کی جگہ پر وقت پر پہنچنے کیلئے مضطرب ہوتا ہے۔ اس لئے گھر سے جلد نکل جاتا ہے۔ کسی بھی مصروفیت کی پیش بینی سے اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ پسینہ آنے لگتا ہے اور کبھی کبھار اسہال آنے لگتے ہیں۔
پس ارجنٹم نائٹریکم ہماری نمایاں ادویات میں سے ایک دوا ہے جس میں ملاقات کے انتظار میں یا کسی مصروفیت سے قبل تکالیف پیدا ہوتی ہیں حتیٰ کہ ایک غیر اہم مصروفیت سے قبل ممکن ہے مماثل رد عمل ظاہر ہو۔
ارجنٹم نائٹریکم کو تنگ جگہوں سے خوف آتا ہے۔ بند جگہوں سے خوف اور پست ہمتی کے حملے۔ میں آپ کے سامنے ان مریضوں کی چند مثالیں پیش کروں گا جو مجھے یاد ہیں۔ (وتھالکس ہنستا ہے)

ایتھنز کے سنٹر میں میرا ایک ڈاکٹر دوست تھا میں نے اس کیلئے کئی ادویات تجویز کیں مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس پر خوف وہراس کے حملے ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے بند جگہوں سے خوف آتا ہے۔ ایک بار ہمیں کسی مریض کو دیکھنے ہسپتا ل جانا تھا مریض ساتویں منزل پر تھا۔ میں لفٹ کی جانب بڑھا اس کا بٹن دبایا اور انتظار کرنے لگا لیکن میرے دوست نے کہا اوہ! کوئی بات نہیں ہے میں سیڑھیاں استعما ل کروں گا۔ میں نے اسے کہا ایک لمحہ انتظار کرو۔ اس نے کہا نہیں کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا تمہیں کیا ہورہا ہے تم لفٹ میں نہیں جاسکتے۔ اس نے کہا میں لفٹ میں جانا پسند نہیں کرتا۔ جانے دو۔ میں نے کہا کیوں؟ جواب ملا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں لفٹ میں داخل ہوا تو میں مرجاؤں گا ۔ میں نے کہا میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔
ہم سیڑھیاں طے کرکے ساتویں منزل پر گئے اور سیڑھیوں کے راستے واپس آئے۔ میں نے اپنے دوست ڈاکٹر سے کہا کہ تم جتنی جلدی ارجنٹم نائٹریکم لے لو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس علامت کے ساتھ دوسری علامات بھی تھیں جو مجھے معلوم تھیں لیکن میں نے پہلے غلط تشخیص کی تھی۔ کیونکہ یہ سب باتیں آسانی سے نہیں کہی جاسکتیں جیسے کہ میں نے بیان کی ہیں۔ اس کو چاہیے تھا کہ وہ مجھے اپنی دوسری علامات بھی دیتا۔ میرا معدہ میرا یہ میرا وہ۔ تب میں مختلف دوا تجویز کرتا۔لیکن اندرونی مسئلہ جس پر ہماری تشخیص کا دارومدار ہے، اکثر اوقات چھپا ہوتا ہے یا اس کا اس طریقے سے اظہار نہیں کیا جاتا۔ اکثر اوقات آپ کو اس کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو دیکھنا پڑتا ہے۔
ارجئٹم نائٹریکم اکیلا ہو تو بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے حتیٰ کہ خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً ارجنٹم نائٹریکم سنگت کی خواہش کرتا ہے۔ ارجنٹم نائٹریکم ہماری بڑی ادویات میں سے ایک دوا ہے جس میں اکیلا رہنے سے خوف اور سنگت کی خواہش موجود ہے۔ علاوہ ازیں آرسنک البم، لائیکو پوڈیم، فاسفورس بھی ایسی ادویات ہیں جن میں رات کو اکیلا ہونے سے موت کا خوف آتا ہے اور یہ ان ادویات کی بہت ہی نمایاں علامت ہے۔
جیسے جیسے یہ میلان بڑھتا ہے تو مریض ایک ایسی حالت میں پہنچ سکتا ہے جس میں شدید اضطراریت اور مریض کا رویہ بے ہودہ ہوجا تا ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم میں اپنی صحت کی بابت اضطراب ممکن ہے انوکھی حدوں کو چھونے لگے اور جب مریض اکیلا ہو تو آسانی سے خوف و ہراس کی کیفیت میں پھنس جائے اور لرزنا شروع کردے، بڑبڑائے، ہکلائے حتیٰ کہ ممکن ہے کہ اسے تشنج ہونے لگے۔ اکثر اوقات اس بحران کے ہمراہ بار بار پاخانہ آتا ہے یا اسہال لگ جاتے ہیں۔ مریض پر ناقابل بیان خوف چھاجاتا ہے اور مریض ہار مان لیتا ہے۔
اگر مریض رات کو اکیلا ہو تو خصوصی طور پر مضطرب اور اتنا خوفزدہ ہوتا ہے کہ بے ہوش ہوسکتا ہے ۔ اسے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ اس پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے گی یا پھر اس کی موت قریب ہے۔ یہ خوف بتدریج بڑھتا جاتا ہے اور مریض پر چھا جاتا ہے۔ یہ وقت ہے جب مریض کو عموماً ہسپتا ل کے ایمرجنسی روم میں جانا پڑتا ہے۔
صحت کی بابت مریض کے خوف کا امتیازی وصف بیان نہیں کیا جاتالیکن اکثر اوقات ان کو دل کے امراض کا خوف یا دماغی صدمے یا کینسر کا خوف ہوتا ہے۔ مریض خوف کے اس بحران کی کشمکش میں مشورے کا طلبگار ہوتا ہے اور کسی بھی مشورے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرے گا جس کا تعلق اس کی صحت سے ہو۔ مریض ڈاکٹر کو فون کرے گا، رشتہ داروں ، دوستوں کو فون کرے گا، ایک کے بعد دوسرے کو تاکہ مشورہ لے سکے۔
چند مریض اس خوف کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ نے سے خوف کھاتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کے ساتھ موجود رہے۔ مریض کو خوف ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ ہوجائے گا۔ اگر وہ گھر سے باہر ہو ا اور اس کا کوئی ہمراہی نہ ہوا تو اس کی مدد کون کرے گا۔
جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ ارجنٹم نائٹریکم کا مریض ایک متحرک انسان ہوتا ہے جو خطرناک اشیاء کا تجربہ کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی ایسی شے ہو جس سے خطرہ ہو تو یہ مریض اس کے قریب جانا چاہتا ہے ، اسے چھونا چاہتا ہے، اسے آزمانا چاہتا ہے۔ آپ میں سے بہت سوں نے سنا ہوگا۔ میرا ایک دوست ہے ہم اکٹھے مچھلیاں شکار کرنے گئے اور ہم نے ایک ایسی مچھلی شکار کرلی جو بہت زہریلی ہوتی ہے۔ میں نے اس مچھلی کو نیچے رکھا اور اس سے کہا کہ اس مچھلی کو چھونا بھی نہیں اگر تم نے اسے چھولیا تو ہمیں فوراً گھر جانا ہوگا یہ مچھلی بہت زہریلی ہے۔ میں مچھلیاں پکڑتا رہا اور ایک مخصوص لمحے میں نے مڑکر دیکھا تو وہ ٹوکری میں ہاتھ ڈال کر اسے چھونا چاہ رہا تھا۔
میں نے کہا خدا کیلئے مچھلی کو نہ چھونا۔
اوکے! اوکے!
میں دوبارہ شکار میں مصروف ہوگیا اور دوبارہ میں نے مڑکر دیکھا تو وہ مچھلی کو دوبارہ چھوکر دیکھنا چاہ رہا تھا۔ (حاضرین ہنسنے لگے)۔ میں نے اسے فاسفورس کھانے کا مشورہ دیا تھا وہ اتنا کھلا انسان تھا۔ عموماً آپ لوگ ایسے مریضوں کو فاسفورس کے ساتھ گڈمڈ کردیتے ہیں۔ تب میں نے جان لیا کہ یہ کچھ ایسا ہے جس پر منطق سے قابو نہیں پایا جاسکتا۔ وہ خود کو خطرے میں ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ خطرے کو چھونا چاہتا تھا۔ اگر آپ اس تصویر کو ارجنٹم نائٹریکم کے تصور کے ساتھ جوڑیں۔ بلند عمارتوں سے مریض نیچے دیکھتے ہوئے سوچتا ہے کہ اگر میں نیچے کو د جاؤں تو یہ کیسی خوفناک بات ہوگی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کے خیالات اس ترنگ کے ساتھ جڑے ہیں۔ خیالات کیا ہیں کہ کتنی خوفناک بات ہوگی اگر میں نیچے کود جاؤں اوہ۔۔۔۔۔۔
اور مریض اپنے تصور میں نیچے چھلانگ لگا چکا ہے اور وہ اپنے جسم کو گلی میں کچلا پڑا دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ ہوش میں آتا ہے اور سوچتا ہے میرے خدا! میں کیا کررہا ہوں یہ ارجنٹم نائٹریکم ہے۔ یہ مثالی نمونہ ہے۔ اگر مریض آپ کو ایسی علامات مہیا کرے تو آپ کہیں گے شکریہ! اچھی علامت ہے اور یہ دلچسپ علامت ہے۔
میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں کیونکہ ہم مثالوں سے سیکھتے ہیں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ارجنٹم نائٹریکم گلی کیسے پار کرتا ہے۔ گلی خالی ہے اور مریض گلی کو آسانی سے پار کرسکتا ہے۔ دور دونوں طرف سے کاریں آرہی ہیں۔ ارجنٹم نائٹریکم انتظار کرتا ہے۔ جب کاریں واضح طور پر قریب آجاتی ہیں تو وہ گلی پار کرنا شروع کردیتا ہے اور وہ اپنے تصور میں دیکھ رہا ہے کہ کار اس کے اوپر سے گزر گئی ہے اور اسے کچل دیا ہے۔
یہ پیتھالوجی ہے۔ یہی تو ہے جسے ہم شفایاب کرنا چاہتے ہیں اس کے کردار کو نہیں۔ وہ تمام افراد جن کی بابت میں نے بیان کیا ہے ان سب کا کردار مختلف ہے۔ نمایاں علامات مختلف ہیں لیکن ان سب کی پیتھالوجی ایک ہے۔
اگر ہم ارجنٹم نائٹریکم کے مریض کی صفت چند الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مریض حد سے زیادہ جذباتی اور متحرک ہے اور اس کی دماغی اکتسابی صلاحیت کمزور ہے جس کی وجہ سے کئی اقسام کی تحاریک اور خوف پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے انسان کی بات کررہے ہیں جس کی ہم آہنگی کی قوت اور توازن تمام سطحوں پر ابتر ہوچکا ہے۔

kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter